چند لمحوں کے لیے آپ اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنی سوچوں اور جذبوں کو حقیقت کی دنیا سے نکال کر محسوس کریں ۔ ایک خاوند اپنی بیوی کو اپنے ہاتھوں سےمار سکتا ہے ؟ فرض کریں مری ہوئی عورت میں چند لمحوں کے لیے سانس لوٹ آتی ہے اور اسکی روح زندہ ہوجاتی ہے ۔ یہ عورت اپنے جذبات کا اظہار ہم سے اور اپنے خاوند اور بیٹے سے کرتی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ ان عورتوں میں سے ایک عورت ہے ، جسے خاندان کی عزت کے نام پر قتل کیا گیا ہے ۔ آپ تصور میں کھو جائیں اور اور ڈری و سہمی عورت کی دھڑکنیں محسوس کریں۔ وہ آپ سے سوال کرے گی ، مجھے کس نے مارا ، کس نے میری زندگی چھین لی ؟ پھر مجھے یاد آیا کہ مجھے میرے بیٹے اور میرے سرتاج نے قتل کیا ہے ۔ میں نے اپنے قاتل بیٹے کو اپنا دودہ پلایا تھا اور جب وہ بچہ تھا اور روتا تھا میں راتوں کو جاگ کر اسے نیند کی لوری دیتے ہوئے سلاتی تھی ، جب وہ اداس ہوتا تھا ، میں اسے خوش کرنے کے لیے اسکی پسندیدہ ڈش پکاتی تھی ، جب وہ کہیں دیر سے گھر آتا تھا تو میں دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتی تھی ۔ ہاں یہ وہی بیٹا ہے ، جس نے مجھ پرپہلا وار کیا ۔ اس خاوند کے بارے میں کیا کہوں ، جسے میں نے خوبصورت 5 بچوں کا والد بنایا ، انکی پرورش کے لیے اپنی زندگی اجیرن کر دی ۔ میں نے اپنے والدین کے بعد اپنے خاوند کے گھر کو اپنا گھر بنا لیا ۔ آج اسی خاوند نے مجھے موت کی گھاٹ اتار دیا ۔ جن ہاتھوں نے میرا جنازہ اٹھانا تھا ، مجھے حج کروانا تھا وہی ہاتھ میرے قاتل بن گئے ۔ اب میں دنیا کو کیسے اپنے موقف کے بارے میں بتاؤں ، مری ہوئی عورت کی بات کون سنے گا ، میری روح اس لیے بھی تڑپ رہی ہے کہ میرا خاندان تباہ ہو گیا ہے، میرے سرتاج اور میرا خوبصورت بیٹا میرے قتل کے جرم میں جیل روانہ کر دیے گئے ہیں ۔ یا اللہ میری مدد کرو اور کہہ دو کہ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے ۔ عدالت سے کیسے کہوں کہ میرے گھر کے مرد میرے قاتل ہیں ۔ چند دن قبل میرے گھر کے باورچی خانے میں میرے کنبے کے لوگ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ، ہنسی مذاق کے بعد قہقے لگائے جاتے تھے ، بچوں کو سکول لے جایا جاتا تھا ، پاکستان میں موجود اپنے پیاروں کوفون کیا جاتا تھا ،سرد راتوں میں چائے پکتی تھی ، مہمان آتے تھے ، کبھی کبھار ہم لڑائی بھی کیا کرتے تھے ۔ اب ہم کس سے لڑیں گے، کس سے خوشی کا اظہار کریں گے اور کون ہمارے خاندان کا رکھوالا بنے گا ۔ اے دنیا والو میرا مذاق نہ اڑانا اور میرے بچوں کی دیکھبال کرنا، تصویر میں بلال سپرا ۔ تحریر، محمد بلال سپرا
یہ ای میل پتہ اسپیم بوٹس سے محفوظ کیا جارہا ہے، اسے دیکھنے کیلیے جاوا اسکرپٹ کا فعّال ہونا ضروری ہے